Urdu- Incarnation
Notes
Transcript
تعارُف
اگر آپ کو کبھی چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا اِتفاق ہُوا ہو تو آپ یقیناً اِس مشکل سے دوچار ہوئے ہوں گے کہ اپنے علم کو کس طرح چھوٹے سے ذہن میں ڈالا جائے۔ چونکہ بچے کا ذہن محدود ہوتا ہے اور آپ کا عِلم اُس کے مُقابلے میں بڑا ہے۔ اِس لئے وہ پُورے طور پر اُس کے ذہن میں داخل کیا نہیں جا سکتا۔ آپ کے لئے یہ ضرُوری ہوجاتا ہے کہ آپ اپنے عِلم کو بچے کے ذہن کے مُطابق ڈھالیں اور اُس کے ذہن کی سطح پر اُتر آئیں ورنہ آپ کا عِلم بچے کے لئے بیکار ہے۔
علمہ کہتے ہیں کہ بالکل یہی مسئلہ خُدا کو در پیش تھا وہ لامحدود ہوتے ہوئے کس طرح اپنے آپ کو محدود اِنسان کے سامنے ظاہر کرے؟ پس وہ اپنا اظہار انسانی سطح پر کرتا ہے پہلے اُس نے نبیوں کی معرفت انسانی زبان میں کلام کرتے ہوئے اپنے آپ کو ظاہر کیا جس طرح ایک استاد بچے کو سمجھانے کے لئے اُس کی ذہنی سطح پر اُتر آتا ہے۔ اُسی طرح خدا نے بھی محدود اِنسانی زُبان میں کلام کِیا۔ نبیوں کی معرفت خدا کا اپنے اظہار کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ یعنی خُدا اپنے آپ کو اِس طرح ظاہر کرتا رہا جس طرح کہ انسان کی سمجھ میں آسکتا تھا۔ خُدا نے اپنا کلام نبیوں کے باطنی کان میں سنایا اور نبیوں نے اُسے اپنی زبان میں ادا کیا۔ لیکن نبیوں کے لئے اپنی زبان میں کلام کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ جس کا ذکر ہمیں پرانے عہد نامہ میں مِلتا ہے۔ جب موسیٰ نے خُداوند سے کہا ”میں رُک رُک کر بولتا ہوں۔“ جس کا ذکر ہمیں خرُوج کے 4 باب کی 10 ویں آیت میں ملتا ہے اور یسعیاہ کہتا ہے کہ ”میں ناپاک ہونٹوں والا ہوں“ جس کا ذکر ہمیں یسعیاہ کی کتاب کے 6 باب کی 5 ویں آیت میں ملتا ہے۔ یرمیاہ پُکار اُٹھا کہ ”اے خُداوند دیکھ میں بول نہیں سکتا“ اور اِس بات کا ذکر ہمیں یرمیاہ کی کتاب کے پہلے باب کی چھٹی آیت میں مِلتا ہے۔
لیکن خُدا نے ان تمام افراد کا ذمہ لیا اور اُن کی محدود زُبان میں اپنا کلام قلمبند کروایا۔ جب خُداوند نے اِن لوگوں کا ذمہ لیا تو وہ نہ ڈرے، نہ تو ہکلائے بلکہ بڑی دلیری سے خُداوند کے کلام کو لوگوں تک پہنچایا۔ بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے اِس طرح نہ صرف اِن لوگوں نے بلکہ کہ اور بھی بہت سارے نبیوں اور پیغمبروں نے بڑی دلیری سے خُدا کا کلام سُنا اور سنایا۔
خُدا نے نبیوں کی معرفت اِس لیئے کلام کِیا کیونکہ وہ انسان سے محبت رکھتا ہے۔ یہ اُس کی محبت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کرے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ بچے کو محبت کے بارے میں خواہ کچھ بھی بتائیں محبت کا پُورا تصور اُس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک کہ آپ خود عملی طور پر محبت کا ثبوت نہ دیں۔ محبت کا یہ ثبوت آپ بچے کو ایک دفعہ گلے لگا کر دیے سکتے ہیں جو اُس کے لیئے تمام عُمر کے وعظوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھر پُور اظہار ہے۔
یہی کُچھ خدا نے بھی کِیا۔ سلسلہ نبوت کے آخر میں خدا نے انسانی جسم میں ظہور فرمایا۔ وہ مکمل طور پر ہماری سطح پر اُتر آیا اور انسان بن کر ہمارے درمیان رہا۔ وہ ہمارے دُکھ سُکھ میں شریک ہُوا۔ اُس نے دُنیا سے بے حد محبت کی کہ اُس نے بنی نوع انسان کے لیئے اپنی جان بھی دے دی۔ اُس مجسم کلام، مجسم محبت اور مجسم مُکاشفے کا نام خُداوند یسوع مسیح ہے۔
خدا کی اِس محبت کی داستاں کتاب مُقدّس یعنی بائبل میں لکھی ہوئی ہے۔ خُدا نے ہم سے محبت کی اِس لیئے تجسم کے ذریعے آسمان کو چھوڑ کر ہمیں اپنے گلے لگایا۔ اِس محبت کو مقدس رسولوں نے دیکھا، چُھوا، اور ذاتی تجربہ بھی کِیا۔ کلام ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا محبت کرنے والا خُدا ہے وہ محبت کرنے سے نہیں تھکتا۔ اُس کی محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے اُس کی محبت کے پیغام کو ٹھکرایا اور یہاں تک کہ محبت کے آخری اور مکمل مُکاشفہ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ لیکن خُدا کی محبت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ پھر بھی اُس نے ہمیں آگے بڑھ کر اپنے گلے لگایا اور یوں اُس نے محبت کا بھرپُور اظہار کِیا۔
اسے سے پہلے کہ ہم جو حوالہ ہمارے لیئے تلاوت ہوا اُس کے مضمون کی طرف جائیں تھوڑی دیر ہم تجسم کے معنیٰ اور مفہوم پر غور کریں۔
1۔ تجسم کے معنیٰ اور مفہوم
تجسم کے عام معانی “جسم میں ہونا، یا انسانی جسم اختیار کرنا“ کے ہیں۔ جس سے مُراد انسانی خون و گوشت کا مرکب یعنی انسانی بدن میں ہونا ہے۔ اسکے لئے نئے عہد نامے میں استعمال ہونے والے یونانی لفظ سارکس Sarx اور عبرانی Basar کے بنیادی معانی جسمانی صُورت میں لئے جاتے ہیں اور انگریزی زبان کا لفظ Flesh یعنی انسانی بدن جس میں ہڈیاں، خون، گوشت اور پورے بدن کے اعضا شامل ہوں مُراد ہے۔
تجسم کے لئے لاطینی لفظ Incarne جس سے فعل کے طور پر Incarnation یعنی ”جسم میں ہونا“ ہے۔ مقدس یوحنا کی انجیل کے پہلے باب کی چودھویں آیت میں تجسم کے لئے براہِ راست یونانی میں بیان یوں درج ہے۔ (Καὶ ὁ λόγος σὰρξ) جس کا ترجمہ”اور کلام مجسم ہوا“ کیا جاتا ہے۔
جے، آئی۔ پیکر اپنے مضمون بعنوان Incarnation میں تجسم کو یوں بیان کرتے ہیں۔
”یسوع مسیح کے آنے اورانسانی بدن میں موت سہنے سے مُراد یہ ہے کہ وہ جو آیا اور انسانی بدن کی حالت میں مُوا انسان تھا۔ لیکن نیا عہد نامہ اِس بات کی تقدیق کرتا ہے کہ وہ جو مُوا ازل سے ہے اور مسلسل خُدا رہا۔ لہندا تجسم سے مُراد یہ لی جا سکتی ہے کہ خُدا اپنی الوہیت کو متاثر کئے بغیر انسان بنا۔ یہی بات یوحنا رسول نے اپنی انجیل کے شروع میں لکھی کہ کلمہ جو کائنات بناتے وقت خُدا کا ساتھ تھا اور جو ابتدا میں کائنات کی تخلیق سے پہلے نہ صرف خُدا کے ساتھ تھا بلکہ کہ خُود خُدا تھا۔
ہم نے دیکھا کے تجسم کے لُغوِی معنیٰ ”جسم اختیار کرنا“ یا ”جسم میں ظاہر ہونا“ کہ ہیں۔ علمہ کا خیال ہے کہ جب یہ لفظ مسیحی علمِ الہٰی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتِ الہٰی کے دوسرے اقنوم نے جسم اختیار کیا۔ مسیح جسم نہیں بنے بلکہ انہوں نے جسم اختیار کِیا اور یہ تعلیم تمام بائبل میں پائی جاتِی ہے۔ لیکن اِسے واضح صورت میں مقدس یوحنا رسول بیان کرتے ہیں کہ
” اور کلام مُجسّم ہُؤا اور فضل اور سچّائی سے معمُور ہو کر ہمارے درمِیان رہا اور ہم نے اُس کا اَیسا جلال دیکھا جَیسا باپ کے اِکلَوتے کا جلال“۔ اِس کا ذکر ہمیں یوحنا کی انجیل کے 1 باب کی 14 ویں آیت میں مِلتا ہے۔
کلیسیاء کے ایمان میں شروع سے یہ مانا جاتا ہے کہ یسوع مسیح کی جسمانی اور انسانی پیدائش قیصر اوگستس شاہِ روم کے زمانہ میں جب کورنیس یہودا کا حاکم تھا ہوئی۔ شروع سے کلیسیاء نے تسلیم کیا ہے کہ مقدسہ مریم جب یوسف کے ساتھ منگنی کی حالت میں تھی تب رُوح القدس نے اُس پر سایہ کیا، اور وہ حاملہ ہوئی۔ اور یوں یسوع کی پیدائش کنوارِی ماں مریم کے بطن سے ہوئی۔ اُس پیدائش میں انسانی عمل دخل نہ تھا بلکہ یہ سراسر ایک مجعزہ ہے جو خُدا کی طرف سے انسانوں کی بھلائی کے لئے رونما ہوا۔ کنواری کے بطن سے رُوح القدس کی طاقت میں پیدا ہونے کی بنا پر ہی یسوع مسیح خُدا کا بیٹا کہلایا۔ ابھی جب ہم نے تجسم کے معنیٰ اور مفہوم پر غور کیا ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تجسم کے ذریعے خُدا کونسا وعدہ پُورا کیا ہے؟
2۔ تجسم کے ذریعے خُداوند ہمارے ساتھ
جب انسان نے گناہ کیا تو انسان کا خدا سے رشتہ ٹوٹ گیا اور یوں انسان اور خدا کے بیچ میں جدائی آ گئی۔ اب انسان خُدا سے اُس طریقے سے بات نہیں کر سکتا تھا جیسے وہ گناہ سے پہلے کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی خُدا نے اپنی محبت کا ظاہر کرنے کی کوشش کو جاری رکھا اور فرق فرق طریقے سے اُس نے انسان سے رابطہ کِیا۔ پرانے عہد نامے میں کوہِ سینا پر خُداوند نے اپنے آپ کو بنی اسرائیل پر ظاہر کِیا لیکن وہ خداوند کی حضورِی سے ڈر گئے اور انہوں نے موسیٰ سے کہا ” تُو ہی ہم سے باتیں کِیا کر اور ہم سُن لیا کریں گے لیکن خُدا ہم سے باتیں نہ کرے تا نہ ہو کہ ہم مَر جائیں “ جس کا ذکر ہمیں خرُوج کی کتاب کے 20 ویں باب کی 19 ویں آیت میں ملتا ہے۔ خُداوند کا اِس طرح ظاہر ہونا انسان کی برداست سے باہر تھا۔ کیونکہ خُداوند پاک اور انسان گناہگار۔ اِس کے بعد خُداوند نے اپنے آپ کو خیمہ اجتماع میں ظاہر کیا لیکن وہاں پر ایک ہی شخص خُدا کی حضورِی کو محسوس کر سکتا تھا۔ اِس لیئے سلیمان نے خُداوند کے لیئے ایک ہیکل تیار کی جہاں پر سارے بنی اسرائیل خُداوند کی حضوری کو محسوس کر سکتے تھے۔ خدواند نے نہ صرف اپنے آپ کو بنی اسرائیل پر ظاہر کِیا بلکہ اُس نے اسرائیل سے وعدہ کِیا تھا کہ اگر وہ اُس کے حُکموں کو مانیں اور اُن پر عمل کریں تو وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ ہے۔ پیدائش کے 28 ویں باب کی 15 ویں آیت میں خُدواند یعقوب سے کہتا ہے ”اور دیکھ میں تیرے ساتھ ہوں اور ہر جگہ جہاں کہیں تُو جائے تیری حفاظت کروں گا۔ اور تُجھ کو اِس مُلک میں پھر لاؤں گا اور جو میں نے تجھ سے کہا ہے جب تک اُسے پُورا نہ کرلُوں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“ خُداوند نے اپنا یہ وعدہ پُورا کِیا ہے۔ ہم پُرانے عہد نامے میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی بنی اسرائیل نے خُدا کا حُکم مانا تو اُن کو برکت ملی۔ یعقوب کی زندگی کا یہ واقع تجسم کی الہٰی نشاندہی ہے جو ہر لحاظ سے اِس بات کو واضح کرتی ہے کہ آسمان و زمین کا خالق انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے اور رہتا ہے۔ اور اِس کا ثبوت تجسمِ مسیح میں پُورا ہوتا ہے۔ مقدس یوحنا رسول فرماتے ہیں ”اور کلام مجسم ہُوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال“۔ اِس آیت میں یہ ثبوت ملتا ہے کہ خُداوند تجسمِ مسیح کے ذریعے اُس وقت اور آج بھی ہمارے درمیان ہے۔ جب ہم پرانے عہد نامے میں دیکھتے ہیں تو وہاں پر یہودِی لوگ خیمہ اجتماعی میں یا پھر ہیکل میں ہی خُداوند کی حضورِی کو محسوس کرسکتے تھے۔ لیکن نئے عہد نامہ میں لوگوں نے یسوع کو چُھوا، اُس کے ساتھ رہے، کھانا کھایا اور ساتھ سفر بھی کیا ۔ آج وہی لوگ اُس کے گواہ ہیں کہ اُنہوں نے تجسم کے ساتھ ذاتی تجربہ کیا۔ آج ہم بھی جب بائبل مُقدّس پڑھتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں تو بھی یسوع کی حضُوری کو محسوس کرسکتے ہیں۔ خُداوند تجسم کے ذریعے نہ ضرف ہمارے ساتھ رہا بلکہ اُس نے ہمارے لیئے اپنا آسمانی تخت چھوڑ دیا اور ہمارے لیئے اپنے آپ کو خالی بھی کر دیا۔
3۔ اپنے آپ کو خالی کر دیا؟
اگر تجسم کے واقعہ کی بات کریں تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو ہر روز نہیں ہوتا بلکہ مسیح کی پیدائش سے تجسم کا آغاز ہوا اور صلیبی موت سے پورا ہوا۔ بلے ہی یہ ایک تاریخی واقعہ ہو لیکن یسوع مسیح کی زندگی کے حوالہ سے یہ ایک مثالی زندگی ثابت ہوتا ہے۔ جس میں یسوع مسیح نے آسمانی تخت چھوڑ کر پستی اور غربت میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اِس فیصلے میں اپنے آپ کو دُوسروں کے لئے وقف کرنے کا عمل شامل ہے۔ علمہ کہتے ہیں کہ تجسم یعنی خدائے تثلیث کے دوسرے اقنوم ازلی مسیح کا انسانی بدن اختیار کرنا اور یوں آسمان کا جلال کچھ وقت کے لیئے چھوڑ کر انسانی پستی کی حالت میں آنا مسیحی عقیدے کا بنیادی رُکن ہے۔ یہ تعلیم کسی بھی لحاظ سے ثانوی نہیں بلکہ بنیادی عقائد میں مرکزی مقام رکھتی ہے۔ مسیح کا تجسم کافی اور تعلیمات کی بنیاد بھی ہے۔ جسے کہ نجات اور کفارہ کا عقیدہ براہِ راست مسیح کے تجسم سے جُڑا ہے۔ بلکہ کچھ جگہ پر کفارہ کو تجسم سے الگ کرنا مشکل کام ہے۔ تجسم کے بھیدکو سمجھنے کے لیئے عقیدہ تثلث کی سمجھ رکھنا ضرورِی اور یہ ہر لحاظ سے ایک با برکت اور پُر فضل کام ہے۔ اِس کے علاوہ تجسم کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بائبل مقدس شروع سے آخر تک یسوع مسیح کو تخلیقِ کائنات، نجات، کفارہ اور بحالیِ کائنات کے آخری حصے تک خدا اور انسان کے درمیان کامل سردار کاہن کے طور پر درمیانی کی حثیت سے پیش کرتی ہے۔ تجسم کے اِس عمل میں دو بڑے اہم کام ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ خدا نے مسیح میں اپنی محبت اور شخصیت کو کامل طور پر ظاہر کیا۔ اس لیئے یوحنا رسول نے بیان کیا ” خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا جس کا ذکر ہمیں یوحنا کی انجیل کے 1 باب کی 18 ویں آیت میں مِلتا ہے۔ دوسرا یہ کہ خُدا باپ نے مسیح میں ہوکر دنیا سے اپنا میل میلاپ کر لیا۔ وہ دُنیا جو اُس سے باغی تھی، انسان جو اُس کے دُشمن تھے خدا نے اپنی محبت میں اُن سے صلح کر لی اور اُن کی تمام خطاؤں کو مسیح میں معاف کر دیا۔ مقدس پولس رسول نے اِس کا بیان یوں کیا ہے ” خُدا نے مسِیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل مِلاپ کر لیا اور اُن کی تقصِیروں کو اُن کے ذِمّہ نہ لگایا۔“ جس کا ذکر ہمیں کرنتھیوں کے 2 خط کے 5 ویں باب کی 19 ویں آیت میں مِلتا ہے۔ ایسا کرتے وقت خدا نے اپنی محبت کی بنا پر اپنے عدل کے تقاضوں کو پورا کیا۔ اُس نے انسان کے گناہ کی سزا اپنے بیٹے کو انسانی بدن میں دی اور یوں محبت اور عدل کے تقاضوں کو پورا کِیا۔ ہم نے دیکھا تجسمِ مسیح میں خُدا نے انسان کے گناہوں کی خاطر اپنے آپ کو خالی کر دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تجسمِ مسیح کے اِس عمل سے ہمیں کیا برکت ملی؟ تو اُس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تجسم کے ذریعے انسان کا وہ رشتہ بحال ہوا جو گناہ کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ جس کو ہم خُدا کے ساتھ میل میلاپ کہتے ہیں ۔
تجسم کی برکات
1۔ تجسمِ مسیح سے خُدا کے ساتھ میل میلاپ
میل میلاپ کا لفظ نئے عہد نامے میں کافی دفعہ انسان اور خُدا کے میل میلاپ کے رشتہ کی بحالی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ تجسم کے ذریعے یسوع نے نہ ضرف انسان کی حالت تبدیل کی تاکہ اُس کا خُدا کے ساتھ میل میلاپ ہوجائے بلکہ اُس نے دُشمنی کو مٹا کر ہمارا خدا کے ساتھ مکمل میل میلاپ کروایا ۔ اور اُسی تجسم کی بنا پر ہی یسوع نے ہماری رسائی خُدواند تک کرائی۔ میل میلاپ کا یہ کام نہ صرف خُدا نے اپنے اختیار میں رکھا بلکہ اُس نے یہ خدمت ہمارے حوالے کی بھی ہے۔ جب ہم کرنتھیوں کے دوسرے خط کے 5 ویں باب کی 18 ویں آیت دیکھتے ہیں تو وہاں لکھا ہے ” اور سب چِیزیں خُدا کی طرف سے ہیں جِس نے مسِیح کے وسِیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل مِلاپ کر لیا اور میل مِلاپ کی خِدمت ہمارے سپُرد کی۔“ تجسم کا حاصلِ کلام انسان کا خُدا سے میل میلاپ ہے۔ جو خُدا کی اپنی ازلی تجویز کے مطابق ہے، اور خداوند مسیح نے اس تجویز کو پورا کرنے کے لیئے اپنی نہیں بلکہ باپ کی مرضی کو پُورا کیا۔ تاکہ خُداوند کے نام کو جلال مِلے۔ اِس سارے عمل میں سے گذر کر مسیح خُداوند نے وہ سرفرازی جو اُس نے رضا کارانہ طور پر چھوڑِی دوبارہ حاصل کی۔ مقدس رسول اِس بات کو مانتے تھے کہ ہر ایک گھٹنا مسیح کے آگے جھکے گا خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیون کا اور خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ جس کا ذکر ہمیں فلپیوں کے خط کے 2 باب کی 10 ویں آیت میں مِلتا ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر کہ اب انسان کا خدا کے ساتھ میل میلاپ ہوگیا ہے۔ تو انسان کو اِس نئے رشتے کا جواب ایمان اور فرمانبرداری سے دینا ہے، تاکہ یہ رفاقت ایک حقیقت بن جائے۔ تجسمِ مسیح کے ذریعے خدا سےمیل میلاپ ہمارے لیئے ایک بہت بڑی برکت ہے۔ جب میل میلاپ ہو گیا ہے تو اُس نے ہمیں اپنے فرزند بننے کا بھی حق بخشا ہے۔
تجسمِ مسیح سے خُدا کے فرزند بننے کا حق
خُدا کی بادشاہی میں مقام پانا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جِسے کمایا جا سکے۔ مسیح کے خاندان میں پیدا ہونا ایک رُوحانی معاملہ ہے۔ جس کے لیئے زندگی کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے، جو صرف خُدا کا رُوح ہی ممکن کرسکتا ہے۔ اِس میں جسمانی پیدائش کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی زندگی مکمل طور پر خُدا کے حوالے کرتے ہیں۔ میرے عزیزو جب ہم اپنی زندگی خُدا کے حوالے کرتے ہیں تو وہ اُس ہی وقت ہمیں اپنے فرزند بننے کا خق بخش دیتا ہے۔ اِس لیئے خُدا کے خاندان میں رُکنیت صرف فضل ہی سے ہے۔ فرزند بننے کا حق خُدا کی طرف سے ایک نعمت ہے، یہ ایسی چیز نہیں جسے ہم اپنی کوشش سے حاصل کرسکیں۔ تا ہم ایک شخص کو خُدا کے لے پالک فرزند ہونے کے لئے ضرورِی ہے کہ مسیح کے پیغام پر ایمان لایا جائے اور نعمت حاصل کی جائے۔ یسوع کے نام پر ایمان رکھنے کا مطلب ہے مسیح کے کام اور کردار پر مضبُوطی سے کھڑے ہونا۔ وہ سب کچھ جاننا جو مسیح ہے، جو کچھ اُس نے کِیا اور جو کچھ وہ کرنے کے قابل ہے۔ جب کوئی مرد ہو یا عورت اپنی زندگی کا اختیار یسوع کو دے دیتا ہے تب ہی وہ نئے سرے سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اِسی ہی طرح وہ خُدا کا فرزند بن جاتا ہے۔ یوحنا رسول اِس کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ”لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے انہیں خُدا کے فرزند بننے کا خق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔“ صرف وہی لوگ جو یقین کرنے اور ایمان لانے کا فیصلہ کرتے ہیں وہی خُدا کے فرزند ہیں۔ اور خُداوند نے اُن کے نجات کا بندوبست بھی کر رکھا ہے۔
تجسمِ مسیح سے نجات کا بندوبست
ویسے تو نجات کا بنیادی خیال کسی خطرے یا بُری بات سے رہائی پانا ہے۔ یہ رہائی جنگ میں شکست، دُکھوں، دشمنوں، جلاوطنی، موت اور گناہ سے ہوسکتی ہے۔ پرانے عہد نامے میں اسرائلیوں کے لئے نجات کے لئے اعلیٰ ترین مثال مصر سے آزادی تھی۔ ایسی بڑی رہائی خُدا ہی ہے دے سکتا ہے اِس لئے اُسے نجات دہندہ کہا جاتا ہے۔ اور نئے عہد نامے میں یہ لقب یسوع مسیح کو دیا گیا ہے۔
تجسمِ مسیح کے باعث تمام اُمت کے لئے ابدی نجات کا بندوبست کیا گیا۔جو کہ ہمارے لیئے ایک بہت بڑی برکت ہے۔ جب انسان نے گناہ کِیا تو انسان شیطان کے قبضے میں آ گیا۔ اب اُس کے لئے یہ ضروری تھا کہ اُس قبضہ سے آزاد ہو۔ بنی نوع انسان کی نجات کا بندوبست اُسی دِن شروع ہوگیا تھا جب آدم نے گناہ کِیا۔ اور خُداوند نے شیطان سے کہا تھا کہ ”میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔“ جس کا ذکر ہمیں پیدائش کی کتاب کے 1 باب کی 15 ویں آیت میں ملتا ہے۔ لیکن ہر بات کا ایک وقت مقرر ہے جب پرانے عہد نامے کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خُدا نے انسان کی نجات کا بندوبست پہلے سے کر رکھا تھا لیکن اُس کے لیئے صیحیح وقت پر ہونا ضرور تھا۔ اِس سے پہلے کہ خُدا بنی اسرائیل کو اپنے معجزانہ قدرت سے مصر کی غلامی سے رہائی دیتا اُنہیں خدا کے حضور چِلانا پڑا کہ وہ انہیں اُن کے دشمنوں سے رہائی دے۔ جس کا ذکر ہمیں خروج کے 2 باب 23 ویں آیت سے 3 باب کی 7 آیت میں مِلتا ہے۔ اِس سے پیشتر کہ ہم خدا کے فضل سے گناہ سے آزاد کئے جائیں ہمیں اُس کے حضور توبہ اور معافی کا طلبگار ہونے اور مخلصی پانے کی درخواست کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے عہد نامے میں پطرس کے وعظ کے بعد یوں ہوا کہ ” جب اُنہوں نے یہ سُنا تو اُن کے دِلوں پر چوٹ لگی اور پطرؔس اور باقی رسُولوں سے کہا کہ اَے بھائِیو! ہم کیا کریں؟ پطرؔس نے اُن سے کہا کہ تَوبہ کرو اور تُم میں سے ہر ایک اپنے گُناہوں کی مُعافی کے لِئے یِسُوؔع مسِیح کے نام پر بپتِسمہ لے تو تُم رُوح القُدس اِنعام میں پاؤ گے۔“ جس کا ذکر ہمیں اعمال کی کتاب اُس کے 2 باب کی 37 ویں اور 38 ویں آیت میں مِلتا ہے۔ نئے عہد نامے میں ایک اور جگہ لکھا ہے۔ “وہ سب جو خداوند کا نام لیں گے نجات پائیں گے۔“ جس کا ذکر ہمیں رومیوں کے خط کے 10 ویں باب کی 13 ویں آیت میں مِلتا ہے۔ میرے عزیزو اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو گناہگار جانتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور مسیح پر ایمان لے آئے کہ اُس نے اِس کے گناہ اپنے اُپر اٹھا لئے ہیں تو اُسے نجات مِل جاتی ہے اور وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔
حاصلِ کلام
عزیزو ہم نے دیکھا کہ مسیح کے تجسم میں خدا اور انسان متحد ہوتے ہیں۔ مسیح پر ایمان کے وسیلہ سے مسیح میں شامل ہو کر ہر انسان خُدا کو ملنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ خُدا مسیح میں ہے۔ اور مسیح کے تجسم میں ہی ہر کوئی مسیح پر ایمان لانے سے مسیح کے بدن میں شریک ہوتا ہے۔ اور انسان کو مسیح میں ہوتے ہوئے خدا تک رسائی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ انسان تو براہ راست خدا کے پاس نہیں جا سکتا تھا مگر مسیحی ایمان کی بدولت مسیح میں شامل ہونے سے خدا تک ہر انسان کی پہنچ بن جاتی ہے۔ کیونکہ مسیح کے بغیر انسان کا خدا تک پہنچنا نا ممکن تھا۔
اپیل
تجسم کے ذریعے یسوع کا ہمارے ساتھ رہنا ہمارے لیئے ایک نمُونہ ہے۔ یسوع نے آسمانی تخت چھوڑ کر ہمارے واسطے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور ہمارے سطح پر اُتر آیا اور ہمارے درمیان رہا۔ ہمیں اُس کے وسیلہ سے میل میلاپ، فرزند بننے کا حق، اور نجات جیسی برکات ملی ہیں۔ ہمارے لیئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم تجسمِ مسیح کے اِس پیغام کو دُوسروں تک پہنچاتے ہیں؟ ہم خدا کے اِس رَحم اور فضل کو یاد رکھتے ہیں؟ کیا ہم اپنے چال چلن میں دوسروں کے لیئے مثبت نمونہ ہیں؟ اگر نہیں تو آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ خُدا نے انسان کو بچانے کے لیئے اپنے تخت کو چھوڑ کر ہمارے لیئے اپنے آپ کو خالی کر دیا ہم اپنے آپ کو کتنا خالی کر تے ہیں؟
خُداوند آج کے اِس کلام کے وسیلہ سے ہم سب کو برکت دے۔ (آمین)